
اور پھر سب نظارے بدل جاتے ہیں ۔۔۔۔۔!!
جب اپنی روح سے دوستی ہو جاتی ہے تو پھر نظارے بدل جاتے ہیں، جیسے کسی بند کمرے کی کھڑکی اچانک کھل جائے اور ہوا کے ساتھ کوئی ان دیکھا پیغام اندر چلا آئے، کوئی ایسا پیغام جو انسان کے وجود کی جڑوں تک لرزہ بھیج دے، جو اسے بے نام سی سنسنی میں لپیٹ لے، جو اسے اپنے ہی باطن کی دہلیز پر کھڑا کر دے جہاں صدیوں سے خاموشی مچل رہی تھی، جہاں وقت کسی ٹوٹے ہوئے گھڑیال کی طرح رکا ہوا لگتا تھا، جہاں سانسیں بھی ایک مختلف ہی سر میں رواں دکھائی دیتی تھیں؛ انسان کو لگتا ہے کہ جو کچھ وہ باہر دیکھ رہا تھا وہ سب دھوکا تھا، اصلی جہاں تو اس کے اندر بستا تھا—ایک عجیب، پر اسرار، لامتناہی جہاں، جس کی گہرائی کسی اندھے کنویں سے بھی زیادہ گہری، اور جس کی خاموشی کسی جنگل کی رات سے بھی زیادہ شور مچانے والی۔ پھر یوں ہونے لگتا ہے کہ انسان اپنے ہر دکھ، ہر زخم، ہر شکست کو کسی بے طرح قیمتی راز کی طرح تھام لیتا ہے، جیسے ہر درد کے پیچھے کوئی روشنی چھپی ہے اور ہر ٹوٹنے کے اندر کوئی ایسا مکاشفہ سانس لے رہا ہے جو پوری کائنات کا دروازہ کھول دے گا۔ روح جب ہم کلام ہوتی ہے تو لفظ معمولی نہیں رہتے، آوازیں بے معنی نہیں رہتیں، سانسیں صرف سانسیں نہیں رہتیں، وہ نغمے بن جاتی ہیں، زنجیروں کے ٹوٹنے کی صدا بن جاتی ہیں، یا پھر کسی ایسے پردے کے سرکنے جیسی جو انسان کو اس کے اصل چہرے سے روشناس کرا دے۔ عجیب سی لرزش دل میں جاگتی ہے، جیسے کوئی ان دیکھا سایہ کندھے پر ہاتھ رکھ کر کہہ رہا ہو: “جاگ جا، اب اصل دنیا دیکھنے کا وقت آ گیا ہے۔” تب انسان دیکھتا ہے کہ وہ تنہا نہیں، کبھی بھی تنہا نہیں تھا؛ ہر پل، ہر قدم، ہر موڑ پر اس کے ساتھ ایک ہمزاد، ایک ہمسفر، ایک پوشیدہ دوست تھا جو کبھی سایہ بن کر ساتھ رہا، کبھی احساس بن کر، کبھی ضمیر کی سرگوشی بن کر، اور کبھی دل کی دھڑکنوں میں چھپ کر۔ پھر نظارے واقعی بدل جاتے ہیں—وہی درخت، وہی راستے، وہی لوگ، مگر سب ایسے لگتے ہیں جیسے کسی نامعلوم سچائی سے دھلے ہوئے ہوں، جیسے دنیا پہلے محض خاکی تھی اور اب کسی غیبی نور میں بھیگی پڑی ہے۔ آنکھوں کے سامنے سے جیسے دھند ہٹ جاتی ہے، اور انسان خود کو پہلے سے کہیں زیادہ عجیب، کہیں زیادہ وسیع، کہیں زیادہ حقیقی محسوس کرتا ہے۔ اس کے گرد فضا میں ایک ایسا سحر پھیل جاتا ہے جو اسے اپنے اندر کھینچتا چلا جاتا ہے، ایک ایسا جادو جو نہ ٹوٹتا ہے نہ کم ہوتا ہے، بلکہ ہر لمحہ گہرا ہوتا جاتا ہے؛ پھر انسان کو اپنی دھڑکن بھی راز لگتی ہے، اپنی خاموشی بھی راز، اپنی خوشی بھی راز اور اپنا دکھ بھی راز، اور ان سب رازوں کے بیچ کھڑا وہ خود ایک ایسا معمّا بن جاتا ہے جسے وہ خود بھی پہلی بار سمجھنے لگتا ہے۔ روح کی دوستی میں ایک عجب شور ہے—خاموش مگر کائناتی، مدھم مگر بیزارکرنے والا، روشنی سے بھرا مگر خوف سے لپٹا ہوا—ایسا شور جو کبھی اپنا سارا اندر ہلا کر رکھ دیتا ہے اور کبھی ایسی ٹھنڈک برساتا ہے جیسے کسی صدیوں پرانی دعا کا لمس؛ اور اسی لمس میں ایک ایسا مکاشفہ چھپا ہوتا ہے کہ انسان پہلی بار جانتا ہے کہ اصل دشمن دنیا نہیں تھی، اصل دشمن وہ خود تھا جو اپنی روح سے بھاگتا رہا، اپنے سچ سے بچتا رہا، اپنی حقیقت سے آنکھیں چراتا رہا، اور جب آنکھیں کھلتی ہیں تو اس کی پوری زندگی ایک ایسے آئینے میں نظر آنے لگتی ہے جس میں کچھ بھی چھپ نہیں سکتا۔ وہ اپنے گناہوں کی گرد بھی دیکھ لیتا ہے، اپنے زخموں کے چرکے بھی، اپنی خواہشوں کی تاریکی بھی اور اپنے خوابوں کی چمک بھی، سب کچھ ایک ساتھ، ایک ہی لمحے میں؛ اور اسی لمحے میں اسے وہ حیرت انگیز یقین ملتا ہے کہ انسان کے اندر ایک پوری کائنات آباد ہے—خوف کی، امید کی، یاد کی، روشنی کی، اور ان سب کے پیچھے ایک ایسا دروازہ جو صرف اس وقت کھلتا ہے جب انسان اپنی روح کا ہاتھ تھام لیتا ہے۔ یہی وہ لمحہ ہے جہاں سے نظاروں کا بدلنا شروع ہوتا ہے، جہاں دن رات، خوشی غم، موت زندگی سب ایک دوسرے کے ساتھ گھل مل کر ایسے لگتے ہیں جیسے سب کچھ ایک ہی راز کی مختلف صورتیں ہوں۔ پھر کوئی بھی منظر عام منظر نہیں رہتا؛ چاند کسی کہانی کا دروازہ لگتا ہے، رات کسی تعویذ کی گہرائی، ہوا کسی ان سنے گیت کا ساز، خاموشی کسی ناقابلِ فہم مکاشفے کا ہالہ۔ انسان جیتا تو پہلے بھی تھا، مگر اب وہ زندہ ہونے کا معنی جانتا ہے—روح کی لرزش، دل کی سرگوشی، وجود کی گمشدگی اور پھر اس کی بازیابی… اور ان سب کے بیچ وہ سحر ہے جس سے نکلنا ممکن نہیں، جس میں بندھا رہنا عذاب بھی ہے اور نجات بھی، اور یہی وہ لمحہ ہے جہاں انسان کو اندازہ ہوتا ہے کہ اصل سفر ہمیشہ اندر کا سفر تھا، باقی سب دھوکا، سب پردہ، سب چھل، سب خواب۔
