
محمد زاہد صدیقی فکر و فن کا ہمہ گیر شاعر، ادیب اور سماجی شخصیت……!!
محمد زاہد صدیقی ایک ایسی شخصیت ہیں جنہیں صرف شاعر، ادیب یا دانشور کہنا ان کی ہمہ گیر فکری و تخلیقی وسعتوں کے ساتھ ناانصافی ہوگی، کیونکہ ان کا وجود اپنے اندر ایک مکمل فکری جہان سمیٹے ہوئے ہے، جہاں لفظ صرف اظہار کا ذریعہ نہیں بلکہ اخلاق، علم، شعور اور انسانیت کے ارتقا کی ایک زندہ علامت بن جاتے ہیں۔ زاہد صدیقی کی ذات میں علم و ادب کا جمال، معاشرتی آگہی کا کمال، اور انسان دوستی کا وہ حسن جمع ہے جو کم ہی کسی شخصیت کو نصیب ہوتا ہے۔ وہ ایک ایسے تخلیق کار ہیں جنہوں نے فکر کو محض تحریر کا حصہ نہیں بنایا بلکہ اپنی پوری زندگی کو اس کا آئینہ بنا دیا۔ ان کی تحریروں میں زندگی کی دھڑکن سنائی دیتی ہے، اور ان کے رویّے میں وہ اخلاقی توازن جھلکتا ہے جو کسی بڑے انسان کی پہچان بن جاتا ہے۔ زاہد صدیقی کی فکری شخصیت کا سب سے نمایاں پہلو ان کی ہمہ گیریت ہے۔ وہ صرف ادب کے میدان کے مسافر نہیں بلکہ سماج کے نباض بھی ہیں، جنہوں نے اپنے قلم سے لفظوں کو نہ صرف خوبصورتی بخشی بلکہ مقصدیت کا تاج بھی پہنایا۔ ان کا ہر جملہ کسی نہ کسی معنوی جہت سے وابستہ نظر آتا ہے، ان کے خیالات میں تہہ داری ہے، اور ان کے اظہار میں وہ شفاف سچائی موجود ہے جو دلوں میں اتر کر سوچ کو جگاتی ہے۔ زاہد صدیقی کا فن محض خوبصورت جملوں یا دلکش تشبیہوں کا مجموعہ نہیں، بلکہ یہ ایک فکری نظام ہے جو انسان کو اپنے وجود، اپنے معاشرے، اور اپنے کردار کے بارے میں غور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ وہ ان چند شخصیات میں سے ہیں جنہوں نے ادب کو محض تفریح کا ذریعہ نہیں سمجھا بلکہ اسے انسان سازی کا سب سے مؤثر ہتھیار بنایا۔ ان کا طرزِ تحریر منفرد ہے، ان کی زبان میں نفاست ہے، ان کے الفاظ میں اثر ہے، اور ان کے افکار میں وہ روشنی ہے جو تاریکیوں کو چیر کر راستہ دکھاتی ہے۔زاہد صدیقی کے نزدیک ادب صرف کاغذ پر لکھی تحریر نہیں بلکہ ضمیر کا آئینہ ہے۔ انہوں نے ہمیشہ لکھنے کو ذمہ داری سمجھا، اور یہی احساس ان کی ہر تحریر میں جھلکتا ہے۔ وہ جانتے ہیں کہ ایک ادیب صرف الفاظ کا کاریگر نہیں بلکہ سماج کا معمار ہوتا ہے، اور اسی شعور نے ان کی تحریروں کو سطحیت سے بچا کر گہرائی بخشی ہے۔ ان کے مضامین میں جہاں فلسفے کی نرمی ہے، وہیں روزمرہ زندگی کی حقیقت بھی جھلکتی ہے۔ وہ معاشرے کی نبض پر ہاتھ رکھ کر لکھتے ہیں، اس لیے ان کی بات سیدھی دل میں اترتی ہے۔ ان کی گفتگو میں نرمی ہے مگر مفہوم میں شدت؛ وہ کسی کی تضحیک نہیں کرتے بلکہ اصلاح کرتے ہیں، کسی پر تنقید نہیں کرتے بلکہ سمت دکھاتے ہیں۔ زاہد صدیقی کا یہی وصف انہیں محض ایک لکھاری نہیں بلکہ ایک فکری رہنما بناتا ہے۔ وہ لفظوں کے محتاط استعمال کے قائل ہیں، ان کے نزدیک ہر لفظ کی ایک روح ہوتی ہے، اور اس روح کو مجروح کیے بغیر کسی خیال کو ادا کرنا ہی اصل فن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کا اسلوب نرم بھی ہے اور مضبوط بھی، سادہ بھی ہے مگر عمیق بھی۔ ان کی گفتگو میں سلیقہ ہے، ان کے جملوں میں ترتیب ہے، اور ان کے رویے میں وقار۔ وہ لکھتے ہیں تو لفظ نکھر جاتے ہیں، بولتے ہیں تو خیال روشن ہو جاتا ہے، اور خاموش رہتے ہیں تو وقار بول اٹھتا ہے۔محمد زاہد صدیقی کا فکری دائرہ محض ادب یا شاعری تک محدود نہیں۔ وہ ایک سماجی شخصیت کے طور پر بھی جانے جاتے ہیں جنہوں نے ہمیشہ انسانوں کے درمیان رشتوں کی نزاکت، محبت کی ضرورت اور معاشرتی انصاف کی اہمیت پر زور دیا۔ ان کی سوچ میں انسان مرکزیت کا پہلو غالب ہے۔ وہ ہر نظریے، ہر نظام اور ہر طرزِ عمل کو اسی پیمانے پر پرکھتے ہیں کہ آیا یہ انسان کے لیے رحمت ہے یا زحمت۔ وہ کتابوں سے محبت کرتے ہیں مگر کتابی نہیں ہیں؛ وہ معاشرتی حقیقتوں کو جانتے ہیں مگر مایوس نہیں ہوتے؛ وہ اقدار کے علمبردار ہیں مگر دقیانوسیت کے قائل نہیں۔ ان کے نزدیک جدیدیت کا مطلب روایت سے انحراف نہیں بلکہ روایت کو نئے شعور کے ساتھ اپنانا ہے۔ ان کی تحریریں اس بات کا ثبوت ہیں کہ وہ تبدیلی کے قائل ہیں مگر بغاوت کے نہیں، وہ اصلاح کے خواہاں ہیں مگر انتشار کے نہیں۔ وہ ایک متوازن ذہن کے مالک ہیں جن کے نزدیک زندگی میں حسن بھی ضروری ہے اور معنویت بھی۔ ان کا مطالعہ وسیع ہے، ان کی نظر گہری ہے، اور ان کی سوچ ہمہ گیر۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی تحریروں میں آپ کو مذہب کی روح بھی ملے گی، فلسفے کی گہرائی بھی، نفسیات کی باریکی بھی، اور ادب کی لطافت بھی۔زاہد صدیقی نے زندگی کو ہمیشہ ایک امانت سمجھا۔ وہ جانتے ہیں کہ ایک قلمکار کی حیثیت سے ان پر فکری دیانت داری کا بھاری بوجھ ہے۔ انہوں نے کبھی اپنے قلم کو ذاتی مفاد کے لیے استعمال نہیں کیا، بلکہ اسے عوام کی آواز، محروموں کی نمائندگی اور سچائی کی ترویج کے لیے وقف رکھا۔ وہ اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو ادب کو قوم کی روح سمجھتی تھی، اور اسی لیے ان کے الفاظ میں وہ خلوص جھلکتا ہے جو صرف خدمتِ انسانیت سے جڑا ہوتا ہے۔ ان کی گفتگو میں عاجزی ہے، ان کے عمل میں سادگی ہے، مگر ان کے اثر میں عظمت ہے۔ ان کی شخصیت کی ایک خوبی یہ ہے کہ وہ ہر عمر، ہر طبقے اور ہر ذہنی سطح کے فرد سے بات کر سکتے ہیں، اور ہر شخص کو یہ احساس دلاتے ہیں کہ وہ قابلِ احترام ہے۔ ان کے نزدیک عظمت کا اصل پیمانہ شہرت نہیں بلکہ خدمت ہے، اور یہی فلسفہ ان کی زندگی کے ہر موڑ پر نظر آتا ہے۔ وہ ہمیشہ علم کو بانٹنے کے قائل رہے، نہ کہ اس پر اجارہ داری قائم کرنے کے۔ وہ نوجوانوں کے لیے مشعلِ راہ ہیں کیونکہ ان کی گفتگو میں امید ہے، ان کے کردار میں راستبازی ہے، اور ان کے عمل میں تسلسل۔زاہد صدیقی کا فن اپنے اندر ایک تہذیبی وقار رکھتا ہے۔ وہ ادب کو محض زبان کی مہارت نہیں سمجھتے بلکہ اسے اخلاقی تربیت کا ذریعہ مانتے ہیں۔ ان کے نزدیک قلم ایک مقدس امانت ہے، اور یہی احساس ان کے اسلوب میں جھلکتا ہے۔ ان کی نثر میں تہذیب کی خوشبو ہے، ان کے خیالات میں انسانیت کی روشنی ہے، اور ان کے الفاظ میں دل کو چھو لینے والی گرمی۔ وہ کسی ایک نظریاتی دائرے میں قید نہیں بلکہ وسعتِ نظر کے علمبردار ہیں۔ وہ تنقید نہیں کرتے، بلکہ تعمیر کی بات کرتے ہیں؛ وہ نفرت نہیں پھیلاتے، بلکہ محبت کی زبان میں شعور بیدار کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک اصل تعلیم وہ ہے جو انسان کو انسان بنائے، اور اصل فن وہ ہے جو روح کو جلا بخشے۔ ان کا کام ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ادب صرف ذہن کو نہیں، دل کو بھی روشن کرتا ہے۔ زاہد صدیقی کی تحریریں ہمیں یہ سکھاتی ہیں کہ لفظوں کی اصل طاقت ان کے مفہوم میں نہیں بلکہ ان کے مقصد میں ہوتی ہے، اور جب مقصد انسانیت ہو تو ہر لفظ دعا بن جاتا ہے۔ان کی زندگی اس بات کی مثال ہے کہ ایک شخص اگر خلوص، محنت اور علم کو اپنا شعار بنائے تو وہ اپنے دائرے سے نکل کر ایک تحریک بن جاتا ہے۔ زاہد صدیقی بھی ایک تحریک کا نام ہیں — ایک ایسی تحریک جو اخلاق، کردار، علم اور محبت کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ وہ اس دور میں امید کی کرن ہیں جب لفظ اپنی حرمت کھو رہے ہیں، جب مفاد نے مقصد کی جگہ لے لی ہے، اور جب شہرت نے خدمت کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ ایسے ماحول میں زاہد صدیقی جیسے لوگ وہ درخت ہیں جو صحراؤں میں سایہ دیتے ہیں۔ ان کی باتوں میں تسلی ہے، ان کے رویّوں میں امن ہے، اور ان کی شخصیت میں وہ وقار ہے جو علم، کردار اور خدمت کے امتزاج سے پیدا ہوتا ہے۔ ان کا وجود ہمیں یاد دلاتا ہے کہ سچا ادیب وہ نہیں جو دنیا کو بدلنے کے خواب دکھائے بلکہ وہ ہے جو انسان کے اندر بدلاؤ پیدا کرے۔ زاہد صدیقی کا فن اسی اندرونی انقلاب کا استعارہ ہے۔وہ معاشرتی شعور کے علمبردار ہیں، اور یہی ان کی تحریروں کا بنیادی جوہر ہے۔ وہ فرد کو اس کے سماجی، اخلاقی اور فکری وجود کے ساتھ جوڑتے ہیں۔ ان کے نزدیک ترقی کا مطلب صرف معاشی یا سائنسی ترقی نہیں بلکہ فکری اور اخلاقی ترقی ہے۔ وہ قلم کے ذریعے سوچ کو آزاد کرتے ہیں، اور قاری کے دل میں خود احتسابی کا شعلہ روشن کرتے ہیں۔ ان کی باتوں میں فلسفہ ہے مگر فلسفہ بوجھل نہیں، بلکہ زندگی سے جڑا ہوا ہے۔ ان کی گفتگو میں گہرائی ہے مگر وہ عام آدمی کے فہم سے دور نہیں۔ یہی توازن ان کے فن کو عظیم بناتا ہے۔ وہ معاشرت کے پیچیدہ سوالوں کے جواب دینے سے نہیں کتراتے بلکہ ان پر گفتگو کرتے ہیں تاکہ سوچ کا دروازہ کھلا رہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ معاشرہ تبھی زندہ رہتا ہے جب سوال کرنے کی آزادی برقرار رہے، اور یہی آزادی انہوں نے ہمیشہ قلم سے بھی دی اور کردار سے بھی۔محمد زاہد صدیقی کا ذکر کیے بغیر جدید اردو ادب کی بات ادھوری محسوس ہوتی ہے۔ وہ اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں جو روایت اور جدت کے درمیان ایک خوبصورت پل بناتی ہے۔ ان کے فن میں ماضی کا احترام بھی ہے اور مستقبل کی فکر بھی۔ وہ قدروں کے محافظ ہیں مگر زمانے کے ساتھ چلنے کے قائل بھی۔ ان کا اسلوب وقت کی گرد سے بے نیاز ہے، کیونکہ وہ وقتی نہیں، ابدی سچائیوں کے بیان کنندہ ہیں۔ ان کی گفتگو میں جو نرمی ہے، وہ دلوں کو مسخر کر لیتی ہے، اور ان کی خاموشی میں جو گہرائی ہے، وہ سوچ کو بیدار کر دیتی ہے۔ ان کے نزدیک انسان کی اصل عظمت اس کے علم یا دولت میں نہیں بلکہ اس کی نیت اور کردار میں ہے۔ یہی ان کی زندگی کا فلسفہ بھی ہے اور ان کے فن کا بھی۔محمد زاہد صدیقی ایک عہد کا نام ہیں — وہ عہد جس میں لفظوں نے کردار کا لباس پہنا، اور فکر نے انسانیت کی خدمت کا پیمان باندھا۔ ان کی شخصیت روشنی کی طرح ہے جو خود جل کر دوسروں کے لیے راستہ روشن کرتی ہے۔ وہ اس دنیا میں اخلاقی اور فکری بیداری کے نمائندہ ہیں، اور ان کی تحریریں آنے والی نسلوں کے لیے رہنمائی کا سرمایہ۔ ان کے الفاظ میں سچائی ہے، ان کے لہجے میں وقار ہے، اور ان کے وجود میں علم و محبت کا حسین امتزاج۔ ان کا کام ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ سچا ادیب وہ ہے جو لفظوں سے زیادہ کردار میں بڑا ہو، جو محض سوچنے والا نہیں بلکہ محسوس کرنے والا ہو، اور جو محض لکھنے والا نہیں بلکہ جینے والا ہو۔ محمد زاہد صدیقی کی ذات ایسے ہی انسان کی جیتی جاگتی مثال ہے — ایک ایسا شخص جس نے ادب کو عبادت، علم کو خدمت، اور زندگی کو امانت سمجھ کر گزارا۔ ان کا نام آج بھی ادب کے افق پر ایک روشن ستارے کی طرح چمک رہا ہے، اور آنے والے زمانے میں بھی ان کی روشنی ان دلوں کو منور کرتی رہے گی جو لفظ، سچ اور انسانیت پر ایمان رکھتے ہیں۔
